Add To collaction

لیکھنی ناول -20-Oct-2023

تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر17

وہ کب سے بڑی بے تاب نظروں سے ہادیہ کو دیکھے جارہا تھا جب حیدر نے اس آکرہلایا کیا ہوگیا شہزادے کہاں کھو گیا ہے کہی نہیں تو بتا کب آیا اس جلدی سے ہادیہ سے اپنی نظریں ہٹاٸی عبداللہ نہیں آیا ابھی تک وہ پوچھنے لگا نہیں ابھی تک تو نہیں آیا آتا ہوگا ہہمممم صیح چل تو بیٹھ میں آتا ہوں ابھی وہ بول کر باہر چلا گیا اور لان میں کھڑا ہوکر سگریٹ سلگا کر ہونٹوں میں دبا کر دو انگلیوں سے ماتھے کو مسلنے لگا پتا نہیں کیا ہوگیا تھا مجھے کیوں کیا اس کے ساتھ ایسا اور کیوں ڈانٹا اس بےچاری کو اگلے ہی پل خود سے بولا نہیں ٹھیک کیا جو اس نادان لڑکی کو ڈانٹا شوز لےکر کھڑی ہوگی اب یہ کام سجتا ہے اس کو پاگل جھلی نہ ہو پتا نہیں کیوں نہیں سمجھتی صدف نے آکر اس کے سامنے چٹکی بجاٸی تو وہ اپنے خیالوں سے باہر نکلا کیاہوا ہادیہ وہ روانی میں بولا یہ میں ہوں صدف اب اتنی پہچان بھی نہیں رہی تمھیں کہ فرق کرسکو تم تو بول رہے تھے تمھارا اس سے کوٸی تعلق نہیں پھر کیوں وہ تمھارے حواسوں پر اس قدر سوار ہے تمھیں اس کی اور میری پہیچان بھی نہیں رہی وہ جلتے ہوۓ بولی ایسی کوٸی بات نہیں پہچان ہے تمھاری میں کچھ سوچ رہا تھا تب ہی بے دھیانی میں بول گیا اس میں اتنا بھڑکنے کی کیا بات ہے اور کوٸی بھی نہٕیں سوار میرے دل و دماغ پر وہ چورلہجے میں بولا صدف سے نگاہ پھیر لی اچھا ایسی بات نہیں تو نگاہ ملا کر بات کرو انف از انف صدف بہت ہوگیا میں کیوں دواپنی صفاٸیا ں اپنے دل ودماغ کی اور میں کیوں نگاہ
چراوں گا وہ اکھڑ ہوۓ لہجے میں بول کر اندر چلا گیا جب کہ صدف اس کو آوازیں دیتی رہ گی نعمان ملک اور راحت ملک اپنےبچوں اور قریبی رشتے داروں کے ساتھ شاہ ہاوس آگےتھے جہاں ان کا سب نے پھولوں کی پتیوں سےشاندار استقبال کیا نعمان ملک اقرارشاہ سے بڑےپرجوش ہوکر ملے ادھر راحت ملک بھی اپنی بہن سے ایک نٸے رشتے میں جوڑنے کی خوشی میں بہت پیار سے ملی وہی نجف اور علی نے یاسر کو زور سے گلے لگایا ہادیہ بھی پھولوں کی مالا لے کرآٸی اور بہت پیار
سے اپنے بھاٸی کو پہناٸی تم نہیں آٸی نا ہادی میں نے بہت ویٹ کٕیا تمھارا یاسر اس سے شکوہ کرنے لگا بھاٸی آپ کو بولا تھا یہ میرے گھر کی پہلی خوشی تھی میں اپنے گھر رہنا چاہتی تھی اور آپ نے آنا تو یہی تھا وہ بولی تو اس کی خوشی دیکھ کر یاسر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنے ساتھ لگایا جیسے تم خوش ہم ویسے خوش اب بس کردیں آپ دونوں بھاٸی بہن کوٸی ہمیں پوچھ لوں ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں نور چہک کر بولی تو سب ہنسنے لگے ہاں بھی چلوں بیٹھو سب اورتم ہادیہ مریم شماٸلہ میرے دوست کی شان میں کوٸی کمی نہیں ہونی چاہیے اقرار شاہ نعمان ملک کے ساتھ کھڑے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے چلیں آۓ بیٹھیں آپ سب شماٸلہ مسکرا کر سب کو لان میں لگی کرسیوں کی طرف لے آٸی سب کے بیٹھنےکے بعد ہادیہ سب کو کولڈ ڈرنک سرو کرنے لگی سب کو دےکر اب وہ علی کو دینے آٸی علی اس کوگہری نظرو ں سے دیکھنے لگا جس سے ہادیہ گھبرانے لگی یہ یہ لے لو وہ علی کو دیکھے بنا بولی میرا نمبر سب سے آخر میں آیا ہے تمھارٕی لسٹ میں وہ بھاری ہوتی آواز میں بولا کیا مطلب ہادیہ نے جھٹ سے سر اٹھا کر اس کو دیکھا او بولی یہی تومسٸلہ ہے ہر بات کا مطلب سمجھنا پڑتا ہے تم خود کچھ نہیں سمجھتی کیا نہیں سمجھی میں مجھے بھی تو پتا چلے وہ کچھ پل خاموش ہو کراس کودیکھتا رہا کچھ نہیں دولفظ بول کر وہ دوسری جا نب دیکھنے لگا جو اس بات کااشارہ تھا جاو تم بات ختم وہ کندھے اچکا کر اندر چلی گی اپنے آپ سے بولنے
لگی پتا نہیں کیا ھوگیا آج کھڑوس کو ######## نعمان ملک اپنے آفس میں بیٹھتے جب ان کو
اقرارشاہ کی کال آٸی نعمان مجھے تجھے بہت
ضروری بات کرنی ہے ابھی کے ابھی مجھے مل ٹھیک میں آتا ہوں بول کر نعمان ملک اقرارشاہ کے بتاے ہوے ریسٹیورنٹ آگے تھے جب وہ ان کو نظر آۓ سلام دعا کے بعد نعمان ملک نے اقرارشاہ سے پوچھا خیرتھی شاہ کیا ھوگیا ایسی کیا بات ہوگی کیوں پریشان ہے اتنا بتا مجھے جو ہوسکا میں کروں گا تیرےلیے یار ملک میں ہاتھ جوڑتا ہو تیرے آگے تو میرے بیٹے اور میرے گھر کو بچا لے ورنہ میرا گھر تباہ ہوجاۓ گا وہ باقاعدہ نعمان ملک کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولے وہ اس وقت بہت ہارے ہوۓاور مجبور لگ رہے تھے کیا ہوگیا ہے ایسے کیوں کررہا ہے یار شاہ کیابات ہوگی ہے کس کو بچا لو گھر کو کیا ہواکھل کر بات کر مجھے سب بتا بھروسہ کر جوبھی ہے سب بتا مجھے سے جوہوسکا میں کروں گا وہ اقرارشاہ کے ہاتھ تھام کر بولے ملک وہ علی نےہادیہ سے شادی کے لیے منع کردیا ہے ایک پل کےلے نعمان ملک کے ہاتھ لرز تھے تو پھر اب کیا چاہتے ہو تم میں چاہتا ہوں یہ شادی لازمی ہو کچھ بھی ہو جاۓ میرے گھر کی بہو ہادیہ بنے گی صرف وہ ہے جو میرے سر پھرے بے لگام بیٹے کو سنبھال سکتی ہے ورنہ جو وہ چاہتا ہے وہ راستہ ا س کو اور میرےگھر کو تباہی کی جانب لے جاۓ گا اور سب ختم ہوجاۓ گا میراگھر میرےرشتے اور سب سے بڑھ کر خود
علی بھی وہ نادان ہے سمجھ نہیں رہا وہ چاہتا ہے میں وہ ہرگز نہیں کرسکتا مٕیں سب جانتے ہوۓ اس کو آگ میں نہٕیں جھونک سکتا وہ ہارےلہجے میں بولے اور سانس لینے کوروکے کیا چاہتا ہے علٕی بتا مجھے نعمان ملک نے سوال کیا وہ شمع آپا کی بیٹی صدف سے شادی کرنا چاہتا ہے اور تو بھی اس شادی کی وجہ اور انجام جانتاہے وہ ماں بیٹی باخوبی جانتی ہیں ہادیہ اور علی ایک
دوسرے کو پسند کرتےہیں اور علی اس بات کو قبول کرنےکوتیار نہیں وہ اپنی بیسٹ دوست کو پسند کرتاہے وہ وقت کے ساتھ سب سمجھ جاۓگا بس ایک بار یہ شادی ہوگی تو سب ٹھیک ہوجاۓ گا اگر صدف اور شمع آپا کی نیت صاف ہوتی تب بھی
شاید علی کی شادی صدف سے نہ کرتا کیوں کہ وہ صرف ایک لڑکی کے ساتھ خوش رہ سکتا ہے وہ ہادیہ ہے اور تو جانتا ہے شمع آپا اور صدف ان دونوں کو کیوں دور کرنا چاہتے ہٕیں کیوں کہ ہادیہ تیری بیٹی ہے وہ بولے کر خاموش ہوۓ اور نعمان ملک کو آس سے دیکھنے لگے اہہیہوں انہوں نے ٹھنڈاسانس بھرا اور بولے میں جانتا ہوں شمع یہ سب مجھے سے بدلہ لینے کے
لیے کررہی ہے اس کے ایساکرنے سے مجھے بہت دکھ ہوگا تو سب جانتا ہے میرا اس سب میں کوٸی قصور نہیں تھا وہ سب میں نے تیری عزت کو بچانے کے لیے کیا تھا جس پر میں آج تک شرمندہ نہیں ہوں
جانتا ہو یار تیرٕٕے جیسٕے دوست توقسمت والوں کوملتٕے ہیں میں کبھی بھی تیری اس نیکی کابدلہ نہیں دے سکتا اقرار شاہ شکریہ ادا کرتے ہوۓبولے چھوڑ ان پرانی باتوں تیرے لیے جان بھی حاضر ہے جو ہم نے ڈیٹ رکھی ہیں اس پر تو اپنے بیٹے علی
کی بارات لاۓ گے میرے گھر اور اپنی امانت لے جاۓ گا یہ وعدہ ہے میرا تجھے سے مگر علی نےہادیہ سے کچھ کہا مطلب شادی روکنے کاتو اورکسی سےکہا تو پھر ہم کیاکرے گے وہ پریشان سےبولے میں نے ہادیہ کوبلایا اس سمجا دیتے ہیں ابھی پوری بات نہیں بتاتے وہ پیشان ہو جاۓ گی اور رہی بات علی کی وہ مجھے سے بات کرچکاہے میں اس کو بولا اگر ہادیہ نے منع کردیا تو نہیں ہوگی شادی اور وہ کسی سے یہ بات کرےگا نہیں اور ہادیہ اس شادی منع نہیں کرے گی بس تو نے علی اور ہادیہ کواب سے شادی تک ملنے سے روکنا ہے باقی سب میں سنبھال لوں گا اقرار شاہ پختہ لہجے میں بولے سب ٹیھک ہو جاۓ گا ان شاء اللہ وہ دونوں یک زبان بولے ا ور ہادیہ کو دیکھنے کے لیے باہر چلے گے ¥%®&^¥*÷=%[ سدرہ کو شماٸلہ اور ہادیہ نے لاکر یاسر کے ساتھ بیٹھایا تھا جب ہادیہ بے دھیانی میں پیھچے ہوٸی تو اس کے پاوں کے نیچے کچھ آیا وہ لڑکھڑاٸی اس پہلے وہ گرتی کہ ساتھ کھڑے علی کے چچا زاد یاور نے اس کو پکڑانا چاہا مگر علی عقاب کی طرح ہادیہ کی طرف لپکا اور اس کو تھام کر یاور کو خونخوار نگاہوں سے دیکھنے لگا جوہادیہ کو بڑی فرصت سے دیکھ رہاتھا بات سن یاور اپنی نگاہ اور ہاتھ قابو میں رکھ ورنہ تو جانتاہے مجھے وہ ا س کے کان میں بولا اور ہادیہ کاہاتھ پکڑ کر گھر کے اندر لے آیا اور اس کولاونج میں لگے قد آدم آٸینے کے سامنے کھڑا کیا یہ دیکھو ذرا اپنی لپ اسٹک کتنی ڈراک ہے ہلکا کرو اس کو وہ اس کے پیچھے کھڑا ہوکر بولا کہاں ہے تیزسہی تو ہے وہ ممناٸی جب میں بول رہاہوں تمہیں سمجھ نہیں آٸی وہ اس کو اپنی طرف گھوما کر بولا تم ایسے نہیں مانو گی میں خو د کرتا ہوں بول کر اپنی جیب سے رومال نکال کر اس کے ہونٹوں کے قریب اپنے ہاتھ کرنےلگا تھا وہ کرنٹ کھ کر پیھچے ہوٸی رہنے دوں میں خود کر لوں گی بول کر اس کےہاتھ دے رومال لیا اورشیشے میں دیکھ کر اپنی لپ اسٹک ہلکی کرنے لگی اب ٹھیک ہے کافی حد تک ہلکا کرنے کے بعد وہ بولی تو علی نےہہہم کیا اور بامشکل اس سے نگاہ ہٹاٸی آٸندہ خیال رکھناکوٸی ضرورت نہٕیں اتنی ڈراک لپ اسٹک کی
جی ٹھیک ہے چلو اب باہر سب ویٹ کررہے ہونگے اس کا ہاتھ پکڑ ا باہر آگیا جب ہادیہ اس کے پل پل بدلتے موڈ اور روپ کو دیکھ کر سوچنے لگی اور پھرسر جھٹک کر ہنہ کرکے کھڑوس بولا کچھ کہا تم نٕے علی ا س کی طرف دیکھ کر بولا نہیں نہیں تو
وہ جلدیی جلدی چلتی ہو ٸی باہر آٸی اور مریم کے پاس کھڑی ہوگی رسم ہونےکے بعد کھانے سرو ہونے تک ہادیہ نے خود پر کسی کی پرتپش نگاہیں محسوس کی جب بھی اس نے علی کی طرف دیکھا وہ کہی اور دیکھتا ہوا نظر آیا اور وہ اپنا وہم سمجھ کررہ گی کیابات ہےلالے آج تیری نظرٕیں بڑی بے ادب ہورہی ہے بار بار بھٹک جاتی ہیں کنٹرول کر یار کیوں سب میں اپنا اور اس بے چاری کاتماشہ لگوانا چاہتا ہے کچھ دیر صبر رکھے پھر سب اپنے اپنے ٹھکانے اور تو اپنے پھر دل بھر کر دیکھتا رہو پوری رات ہے جانی حیدر اور عبداللی نے اس کی کھنچاٸی کی کیا مطلب ہے اس بکواس کا بےہودہ ہوتم دونوں چہھچوری حرکت کرناتم ہمیشہ اچھا اور جو تو کررہاہے وہ کیا ہے مانا بیوی کودیکھ کر مسکرانے سے ثواب ملتا ہے پر تو بھی تھوڑی عقل کر یوں سب کے سامنے اپنی ہی بیوی کو تاڑنا بھی اچھی بات نہیں بیڈ روم ہے نا وہاں جاکر اچھی طرح تاڑلے حیدر ہنستے ہوۓ بولا ایسا کچھ بھی نہیں جیسا تم دونوں سمجھ رہے ہو وہ صرف میری دوست ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں اور ویسے بھی میں صدف کو پسند کرتا ہوں علی بولا تو حیدرکے منہ سے جوس کلی کی صورت میں نکلا اور عبداللہ کامنہ میں جاتا چاول کا چمچہ
ہوا میں معلق ہوا وہی ان کو بلانےآنے ہادیہ کو ایسا لگا کسی نے اس پر انگارے ڈالدیے ہو

   0
0 Comments